منٹوپاکستان ضرور چلے گئے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں منٹو کو کبھی بھی پاکستانی تسلیم نہیں کر سکا۔ منٹو تقسیم کے خلاف تھا… تقسیم منٹو کو کبھی راس نہیں آیا… اس لیے میں منٹو کو ہندستان یا پاکستان کے طور پر تقسیم کرنے میں یقین نہیں رکھتا… مگر کیا کیا جائے۔ معاملہ ادب کا ہے تو جی چاہتا ہے، جیسے ہم ہمالیہ یا گنگا پر اتراتے ہیں کہ گنگا میری ہے۔ ہمالیہ میرا ہے۔ ویسے ہی منٹو میرا ہے، کہتے ہوئے کہیں نہ کہیں روح کی تسلی ہو جاتی ہے۔ منٹو اسی طرح ہندستانی ہے، جیسے اقبال تھے۔ اقبال کو لیکر احتجاج کرنے والوں کی کمی نہیں۔ مگر اقبال تو 1938 میں ہی مر گئے یعنی تب جب پاکستان بنا ہی نہیں تھا۔ ہاں اقبال کے عہد کی سیاست نے بھلے ہی اقبال کو مسلم لیگ کا راگ الاپنے کو مجبور کیا ہو، مگر حقیقت دیکھیے تو اس وقت سیاست نے رشتے اور مذہب کے دو حصے تو کر ہی دیئے تھے۔ بہت سے ایسے لوگ تھے جو اس وقت کی نفرت اور انگریزی سازش کا شکار ہو کر پاکستان کا راگ الاپنے لگے تھے، مگر یہی اقبال تھے جنہوں نے ہمالیہ، گرو نانک، رام جی پر بھی نظمیں لکھیں۔ ہندستان کا ترانہ لکھا اور ایسا ادب چھوڑ گئے جسے بھولنا آسان نہیں۔ بڑا ادیب کسی بھی ملک کے وقار میں اضافہ کرتا ہے اور اس کا ادب ایسے خزانہ کی حیثیت رکھتا ہے جس سے آنے والی نسلیں فیضیاب ہوتی رہتی ہیں۔ اسی لیے نہ میں اقبال کو پاکستانی مان سکا نہ منٹو کو۔ فیض احمد فیض اور جوش ملیح آبادی کی بات اور تھی۔ یہ اپنی شرطوں پر گئے تھے۔ جوش کو تو پنڈت نہرو تک جانے سے روکتے رہے لیکن جوش نہیں مانے اور پاکستان جا کر ہی دم لیا۔ منٹو مجبوریوں کے ساتھ پاکستان گئے۔ اور اصل میں منٹو کے خط/ تحریروں کا جائزہ لیجئے تو پاکستان جا کر منٹو خوش کبھی نہیں رہا اور پاکستان جانے کے کچھ عرصہ بعد ہی منٹو کا انتقال بھی ہو گیا۔ ابھی ۱۰۔ ۱۲ برس پہلے ساہتیہ اکادمی کے لیے جب پاکستانی مصنف آصف فرخی نے ’پاکستان کے افسانے‘کتاب مرتب کی تو پہلے افسانہ نگار کے طور پر منٹو کا نام دیکھ کر مجھے افسوس ہوا۔ میں نے ایک مختصر خط میں اپنا احتجاج درج کیا۔ اس خط کا پاکستان میں شائع ہونا تھا کہ وہاں آگ لگ گئی۔ جنگ اور ڈان جیسے اخباروں میں بھی میرے خلاف تحریریں شائع ہوئیں۔ یہاں تک کہ آصف فرخی، حمید شاہد، مبین مرزاجیسے بڑے ادیبوں نے منٹو کو لیکر میرے خلاف مورچہ کھول دیا۔ حمید شاہد نے یہ لکھا کہ بھائی پاکستان کے تمام ادیبوں کو اٹھا کر بھارت لے جاؤ۔ لیکن منٹو کو تو ہمارے پاس رہنے دو۔ چلیے یہ تو ایک رائے تھی— اب منٹو کی زبانی خود ہی سن لیجئے کہ وہ پاکستان جا کر کتنا خوش تھا۔ ’’آج میرا دل اداس ہے۔ ایک عجیب کیفیت چھائی ہوئی ہے، چار ساڑھے چار برس پہلے جب میں نے اپنے دوسرے وطن ممبئی کو چھوڑا تھا تو میرا دل اسی طرح دکھی تھا۔ مجھے وہ جگہ چھوڑنے کا صدمہ تھا جہاں میں نے اپنی زندگی کے بڑے مشقت بھرے دن گزرے تھے۔ اس زمین نے مجھ ایسے آوارہ اور خاندان کے دھتکارے ہوئے انسان کو اپنے دامن میں جگہ دی تھی۔ اس نے مجھ سے کہا تھا، تم یہاں دو پیسے روزانہ پر بھی خوش رہ سکتے ہو اور دس ہزار روزانہ پر بھی۔ ‘‘ اور اب منٹو کے دل کی آواز سنیے۔ اس کے درد کو محسوس کیجئے۔ ’’میں یہاں پاکستان میں موجود ہوں۔ یہاں سے کہیں اور چلا گیا تو وہاں بھی موجود رہوں گا۔ میں چلتا پھرتا ممبئی ہوں۔ جہاں بھی قیام کرونگا وہیں میرے اپنا جہان آباد ہو جائے گا۔ ‘‘ حقیقت یہ ہے کہ منٹو ممبئی کو بھول ہی نہیں سکا۔ مرتے مرتے منٹو میں ممبئی سانس لیتا رہا۔ اور اسی لیے پاکستان میں رہتے ہوئے بھی وہ چلتا پھرتا ممبئی تھا۔ اب اس خوفناک حقیقت کے بارے میں بھی منٹو سے سنیے کہ تقسیم نے اسے کس حد تک توڑ کر رکھ دیا تھا۔ ’’ملک کی تقسیم سے جو انقلاب برپا ہوا، اس سے میں ایک عرصے تک باغی رہا اور اب بھی ہوں۔ لیکن بعد میں اس خوفناک حقیقت کو میں نے تسلیم کر لیا۔ میں نے اس خون کے سمندر میں غوطہ لگایا جو انسان نے انسان کے رنگوں سے بہایا تھا اور چند موتی چن کر لایا، عرق انفعال کے۔ مشقت کے۔ جو اس نے اپنے بھائی کے خون کا آخری قطرہ بہانے میں صرف کی تھی۔ ان آنسوؤں کے جو اس جھنجھلاہٹ میں کچھ انسانوں کی آنکھوں سے نکلے تھے کہ وہ اپنی انسانیت کیوں ختم کر سکے… یہ موتی میں نے اپنی کتاب ’’سیاہ حاشیے‘‘ میں پیش کیے۔‘‘ ’’ہمیں افسوس ہے کہ ہمارے نام نہاد دانشوروں نے بڑی جلد بازی سے کام لیا اور رہبری کے شوق میں اپنا نیم رس جوہر ’’پیالے‘‘ میں ڈال دیا جہاں وہ عدم نگہداشت کے باعث گلنے سڑنے لگا۔ ‘‘ ٭٭ ’’میں آج بہت اداس ہوں … پہلے مجھے ترقی پسند تسلیم کیا جاتا تھا بعد میں مجھے ایک دم رجعت پسند بنا دیا گیا۔ اوہ اب فتوے دینے والے سوچ رہے ہیں اور پھر سے یہ تسلیم کرنے کے لیے آمادہ ہو رہے ہیں کہ میں ترقی پسند ہوں۔ اور فتووں پر اپنے فتوے دینے والی سرکار مجھے ترقی پسند یقین کرتی ہے۔ یعنی ایک سرخہ… ایک کمیونسٹ۔ کبھی کبھی جھنجھلا کر مجھ پر فحش نگاری کا الزام لگا دیتی ہے اور مقدمہ سنا دیتی۔ دوسری طرف یہی سرکار اپنی مطبوعات میں یہ اشتہار دیتی ہے… کہ سعادت حسن منٹو ہمارے ملک میں گزشتہ ہنگامی دور میں بھی رواں دواں رہا… میرا اداس دل لرزتا ہے کہ سرکار خوش ہو کر ایک تمغہ میرے کفن سے ٹانک دیگی جو میرے داغ عشق کی بہت بڑی توہین ہو گی۔ ‘‘ پاکستان میں منٹو کے ساتھ جو سلوک ہوا، اس درد کو ان جملوں میں بہ آسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ شاید یہی درد منٹو کی موت کا سبب بھی بنا۔ ورنہ ۴۲ سال کی عمر مرنے کی نہیں ہوتی۔ تقسیم اور ہندستان چھوڑنے کی سزا نے منٹو کو ٹوبہ ٹیک سنکھ کے پاگل میں تبدیل کر دیا تھا۔ منٹو جیسا پاگل اس درد کو آخر کب تک سہتا۔ اسے تو مرنا ہی تھا۔ صاحب یہ منٹو کا وہی بیان ہے جو اس نے پاکستان جا کر دیا— وہ نہ وہاں جانے سے خوش تھا نہ وہاں کی حکومت سے— بلکہ پاکستان میں بھی اس کے اندر ممبئی زندہ رہا۔